2 ذوالقعدة / April 30

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ: امن کی راہ ہموار

غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری تباہ کن جنگ کے بعد بالآخر جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستانی وقت کے مطابق صبح 11:30 بجے نافذ ہوا۔

معاہدے کی تفصیلات

اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاہدے کو یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو رہائی پانے والے یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرنی ہوگی۔ نیتن یاہو نے خبردار کیا تھا کہ اگر حماس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اسرائیل دوبارہ حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

فلسطینی عوام کی حالت زار

غزہ کے عوام، جو کئی ہفتے جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرتے رہے، اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ جنگ بندی کے بعد فلسطینی خاندان اپنے بکھرے ہوئے سامان کے ساتھ تباہ حال گھروں کو واپس لوٹنے کے منتظر ہیں۔
اسرائیلی حملوں کے دوران، صرف جنگ بندی سے پہلے کے آخری دنوں میں، 33 بچوں سمیت 122 فلسطینی شہید ہوئے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق، جنگ کے دوران مجموعی طور پر 47,899 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے تجاوز کر گئی، جبکہ ہزاروں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

اسرائیلی حملوں کے اثرات

اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ رہائشی مکانات، اسکول، کالج، اور اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ فلسطینی عوام اس تباہی سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، مگر بنیادی سہولیات کا فقدان صورتحال کو مزید سنگین بنارہا ہے۔

اسرائیلی سیاست میں اختلافات

حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر اسرائیل کی اندرونی سیاست میں بھی تناؤ پیدا ہوا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے وزیر اتمار بین گویر، جو اس معاہدے کے سخت مخالف تھے، اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔

حماس کی قیادت کے خلاف کارروائیاں

اسرائیل نے جنگ کے دوران حماس کے اہم قائدین کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات کے مطابق، اسماعیل ہنیہ کو تہران، حسن نصراللہ کو بیروت، اور یحییٰ سنوار کو غزہ میں شہید کیا گیا۔

مستقبل کی صورتِ حال

یہ جنگ بندی معاہدہ ایک نازک موڑ پر ہوا ہے، جہاں دونوں فریق ایک دوسرے پر بدعہدی کے الزامات لگا سکتے ہیں۔ اسرائیل اور حماس دونوں ہی ایک دوسرے کی جانب سے معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کا سخت جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

جنگ بندی سے متاثرہ عوام کو فوری طور پر انسانی امداد اور بحالی کی اشد ضرورت ہے، جبکہ عالمی برادری کی نظریں اس معاہدے کے مستقبل اور غزہ کے عوام کی حالت پر لگی ہوئی ہیں۔