1 ذوالقعدة / April 29

تحریر خرم ابن شبیر

زندگی میں ہمیں مختلف حالات کا سامنا ہوتا ہے جن میں ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنے جذبات پر قابو پائیں گے۔ بدتمیزی، بداخلاقی، اور ناپسندیدہ رویے اکثر ہماری زندگی کا حصہ بنتے ہیں۔ لیکن قرآن اور حدیث میں جو رہنمائی ہمیں دی گئی ہے، وہ ہمیں بتاتی ہے کہ ان حالات کا سامنا کیسے کیا جائے تاکہ ہم نہ صرف اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھیں بلکہ اپنی زندگی میں سکون اور خوشی بھی پا سکیں۔

ہم سب کو زندگی کے مختلف حصوں میں اس بات کا سامنا ہوتا ہے کہ ہم یا تو خاموش رہیں، یا پھر بدتمیزی کا جواب دیں، یا پھر اخلاق سے بدتمیزی کا مقابلہ کریں۔ قرآن اور حدیث میں اس بات کی بار بار تاکید کی گئی ہے کہ ہمیں ان تمام صورتحالوں میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

زندگی کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم خاموش رہنے کی عادت ڈالیں جب ہمیں کسی کی بدتمیزی یا ناپسندیدہ باتوں کا سامنا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: "اور جب تمہیں کوئی بیہودہ بات کہے تو تم اس سے بہتر طریقے سے جواب دو” (سورة الفرقان، 25:63)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات خاموش رہنا سب سے بہترین جواب ہوتا ہے۔ سقراط کا قول بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ "خاموشی کبھی کبھی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے”۔ جب ہم خاموش رہتے ہیں، تو ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور اپنے ردعمل سے اس قدر تحفظ فراہم کرتے ہیں جو کسی تنازعے کو بڑھانے کے بجائے اسے ختم کر دیتا ہے۔

زندگی کا دوسرا درجہ اس وقت آتا ہے جب ہمیں بدتمیزی کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو” (جامع ترمذی)۔ اس حدیث کے ذریعے ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہم دوسروں کی بدتمیزی کا جواب بدتمیزی سے نہیں بلکہ اخلاق کے ساتھ دیں۔ جب ہم بدتمیزی کے باوجود اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو نہ صرف ہم اپنی عزت کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ ہم دوسروں کو بھی ایک مثال فراہم کرتے ہیں کہ اخلاقی سلوک کیسے کیا جاتا ہے۔

تیسرا اور سب سے اہم درجہ یہ ہے کہ ہمیں بداخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "جو تمہارے ساتھ برا کرے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہارے اخلاق کی جیت ہو”۔ اس قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم بداخلاقی کا جواب اخلاق سے دیتے ہیں تو ہم نہ صرف خود کو بلند رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سبق سکھاتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: "جو شخص کسی کی بیزتی کرے اور پھر معاف کر دے، اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے” (مسلم)۔

زندگی میں بعض اوقات لوگ ہمیں تکلیف دیتے ہیں، لیکن ان کی حقیقت اسی طرح ہے جیسے تنگ جوتے کی۔ تنگ جوتے میں تکلیف ہوتی ہے، لیکن جب ہم انہیں اتار دیتے ہیں، تو تکلیف ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر ہم دوسروں کی بدتمیزی کو اپنی ذات سے الگ کر لیتے ہیں، تو ان کی تکلیف کا اثر ہم پر نہیں پڑتا۔ یہ ایک ذہنی سکون کی بات ہے، جو ہمیں زندگی میں خوشی اور سکون فراہم کرتی ہے۔

زندگی میں خوش رہنا اور خوشیاں بانٹنا بھی ایک اہم اصول ہے۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا: "زندگی کی خوبصورتی کو دیکھنا ایک عظیم عقلمندی ہے”۔ ہمیں اپنی زندگی میں خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف ہم اپنی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔

آخرکار، زندگی کے ان تین اصولوں کو اپنانا ہمیں نہ صرف اپنی ذات میں سکون اور خوشی فراہم کرتا ہے، بلکہ ہم دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ہمیں ان صفات کی اہمیت بتائی گئی ہے اور فلسفہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور خود کو کسی بھی برائی سے بلند رکھے۔