67
بلاول بھٹو وزیر اعظم، مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب
ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تو چند روز میں واضح ہوگا، اس وقت جتنے منہ اتنی باتیں ہیں تاہم سیاست ایک اہم صورت اس وقت اختیار کرسکتی ہے جب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما ملکی قیادت اپنی نئی نسل کو سونپ دیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف…
ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تو چند روز میں واضح ہوگا، اس وقت جتنے منہ اتنی باتیں ہیں تاہم سیاست ایک اہم صورت اس وقت اختیار کرسکتی ہے جب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما ملکی قیادت اپنی نئی نسل کو سونپ دیں۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی امیدواروں کی تعداد اس وقت سب سے زیادہ ہے اور ان ہی کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے حکومت بنانی چاہیے مگر سیاست کتابی باتوں سےنہیں زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ آزاد کی حیثیت سے لڑنا مجبوری سہی مگرآزاد کوپارٹی مانے گا کون؟
نتیجہ واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کتنی ہی خراب سہی، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اب بھی ن لیگ ہی ہے اور کامیاب انتخابی مہم چلانے والے بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کو دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طورپر ابھارا ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہےکہ وزیراعظم کون بنے گااورکیوں؟ عام صورتحال ہوتی تو شاید یہ بالکل واضح تھا کہ میاں نوازشریف ہی وزیراعظم ہوتے اور بلاول بھٹو ایک بار پھر وزیرخارجہ بنتے، کچھ اوراہم وزارتیں بھی پیپلزپارٹی کو مل جاتیں،وفاق میں چند وزارتیں ایم کیوایم اور جے یوآئی ایف کو دے کر کام چلالیا جاتا۔
اب صورتحال مختلف ہے۔ وجہ یہ ہےکہ پیپلزپارٹی جو کنگ میکر کے طورپر ابھری ہےاس کی پوری انتخابی مہم نوازشریف کے خلاف رہی تھی۔ ن لیگ اگر نوازشریف ہی کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرتی ہے تو بلاول بھٹو کے لیے ان کا وزیر بننا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
بلاول بھٹو سیاسی ایڈجسٹمنٹ پر تیار ہوکرلاکھ کہیں کہ یہ نوازشریف وہ نوازشریف نہیں رہے، اب ان کی پالیسیاں مختلف ہوں گی مگر اس کی اہمیت نہیں ہوگی۔
یہ سوشل میڈیا کا دورہے۔ لمحوں میں میمز کاطوفان آجائےگا جو پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچائےگا،انتخابی مہم میں کی گئی ساری محنت اکارت جائےگی۔کہتے ہیں ساکھ برسوں میں بنائی جاتی ہے اورمٹنے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔